ریاستی دارالحکومت بنگلور سے 70 کلومیٹر دور، ٹیپو سلطان کے زمانے میں بسایا گیا یہ گاؤں ڈھائی صدی سے ریاست میں سب سے بڑی شیعہ آبادی کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس گاؤں کی تقریباً 99 فیصد آبادی شیعہ ہے اور شاید اسی لیے اسے انڈیا کا ‘چھوٹا ایران’ بھی کہا جاتا ہے۔
اس گاؤں کی شیعہ آبادی کے علاوہ ایک اور خاص بات یہاں کے رہائشیوں کی قابلِ ذکر تعداد کا قوتِ گویائی و سماعت سے محروم ہونا بھی ہے جس کی بڑی وجہ خاندان میں ہی کی جانے والی شادیاں بتائی جاتی ہے۔
اس گاؤں میں بچوں سے لے کر بالغ افراد تک مختلف عمر کے تقریباً 200 سے زیادہ ایسے افراد موجود ہیں جو قوتِ سماعت و گویائی سے محروم ہیں اور وہ اشاروں کی ایک ایسی زبان میں گفتگو کرتے ہیں جسے مقامی طور پر ہی بنایا گیا ہے۔سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم انسانوں کو 1400 سال قبل کربلا میں نواسہ رسول اور ان کے خاندان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بتانا اور سمجھانا کوئی آسان کام نہیں مگر علی پور والوں نے اس کا حل اشاروں کی زبان میں مجلسِ عزا کی شکل میں نکالا ہے۔
کچھ دن پہلے ٹوئٹر پر علی عابدی نامی صارف نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں چند درجن افراد جن میں سے زیادہ تر نوعمر تھے ایک کرسی پر بیٹھے سیاہ پوش شخص سے اشاروں کی زبان میں کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کمرے کی دیوراوں پر لگی سیاہ چادورں، علم کی شبیہ اور شرکائے مجلس کے سیاہ لباس سے یہ تو معلوم ہو رہا تھا کہ یہ محرم کے حوالے سے منعقد کیے گئے کسی پروگرام کی ویڈیو۔
ٹویٹر پر ویڈیو شئیر کرنے والے صارف نے ساتھ لکھا تھا ‘انڈیا میں واقع میرے گاؤں علی پور میں ہر محرم میں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لیے مجلس بپا کی جاتی ہے۔ کیونکہ ‘اہلیبیت اور امام حسین کا پیغام سب تک پہنچنا چاہیے۔’
بی بی سی نے اس گاؤں کے چند رہائشیوں سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا جن میں نکیر سید بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں گونگے اور بہرے افراد عام مجالس میں جاتے تو تھے لیکن ایک طرف بیٹھے رہتے تھے۔ ‘انھیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، کیا بولا جا رہا ہے، کوئی ان سے کچھ شئیر نہیں کرتا تھا۔
نکیر سید کہتے ہیں ‘قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد میں حساسیت اور وابستگی کا احساس ایک عام انسان کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔’ اور اسی احساس نے آج سے 13 سال قبل یہاں کے ایک رہائشی میر فاضل رضا کو ان افراد کے لیے کچھ کرنے پر مجبور کیا اور انھوں نے ‘اہلبیت ڈیف سینٹر’ کی بنیاد رکھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے میر فاضل رضا کا کہنا تھا کہ ایک دن میرے والد نے مجھ سے کہا ‘حسین کا پیغام ان تک نہیں پہنچ پا رہا۔۔۔ فاضل ان بچوں کے لیے کچھ کرو’۔
اپنے والد کی خواہش کا پاس رکھتے ہوئے فاضل نے ایسے افراد کی مدد کی ٹھان لی اور پہلے اپنے گاؤں کی مخصوص سائن لینگوئج اور پھر بعد میں انڈین سائن لینگوئج سیکھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘پہلے تو میں ان علما سے پوچھا کہ کیا ان بچوں پر بھی وہی شرعی احکامات لاگو ہوتے ہیں جو دوسرے بچوں کے لیے ہیں؟ علما کے مشورے کے بعد ہی میں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔’
فاضل کہتے ہیں کہ ‘ایک عام بچے کی طرح قوتِ سماعت و گویائی سے محروم بچوں کو بھی حلال، حرام سے لے کر دین و دنیا کے دیگر معاملات کی سمجھ ہونی چاہیے’۔
لہٰذا انھوں نے ان بچوں کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم سے لے کر انھیں مختلف ہنر سکھانے کے لیے ‘علی پور ڈیف سوسائٹی’ بنائی جس کا نام اب تبدیل ہو کر ‘اہلیبیت ڈیف سینٹر’ ہے۔
فاضل، علی پور کی سائن لینگوئج اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور زیادہ تر مجالس میں یا تو وہ عالم کے ساتھ بیٹھ کر شرکا کے لیے مترجم کے فرائض انجام دیتے ہیں یا عالم کی غیر موجودگی میں خود مجلس پڑھتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں ایک عام انسان کے لیے محرم و صفر کے ایام میں جتنی مجالس و پروگرام منعقد ہوتے ہیں، بالکل ویسی ہی مجالس و پروگرام، قوتِ سماعت و گویائی سے محروم کے لیے بھی منعقد ہوتے ہیں۔
لیکن فاضل نے یہ سب اکیلے نہیں کیا، اس سب میں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد نے ان کی مدد کی اور اب تو وہ خود ہی تقریباً سارا انتظام سنبھالتے ہیں۔
جب ان مجالس کی خبر کرناٹک کے باقی شہروں اور گاؤں تک پہنچی تو ہر محرم میں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کے خاندان والے انھیں لے کر جوق در جوق علی پور پہنچنا شروع ہو گئے۔
نکیر سید کے مطابق اب پورے علاقے میں قوتِ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی منعقد کردہ مجالس کی دھوم ہے اور ہر برس محرم و صفر کے ایام میں آس پاس کے دیہات میں رہنے والے ایسے افراد بھی علی پور کا ہی رخ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دور دور سے علما آکر ان مجالس سے خطاب کرتے ہیں جس کا ساتھ بیٹھا شخص سائن لینگوئج میں ترجمہ کرتا جاتا ہے۔
اس سوال پر کہ ان کی کسی ویڈیو میں اب تک کوئی لڑکی نہیں دکھائی دی تو کیا قوتِ سماعت و گویائی سے محروم لڑکیوں کے لیے بھی ایسا ہی کوئی انتظام موجود ہے؟ نقیر کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں لڑکوں کے مقابلے میں ایسی لڑکیاں بہت کم ہیں۔
ان کے مطابق فی الحال یہ لڑکیاں اپنی ماؤں کے ساتھ ہی مجالس میں شرکت کرتی ہیں لیکن آئندہ وہ ایک عالمہ کی خدمات حاصل کرنے یا دوسرے حصے میں پردہ وغیرہ ڈال کر سکرین پر لڑکیوں کے بھی اشاروں کی زبان میں مجلس کے انتظام کا ارادہ رکھتے ہیں۔